۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
علامہ نثار حسین عظیم آبادی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | عظیم فلسفی، متکلم ، ماہر علم نجوم و ھیئت ،حسام الاسلام علامہ سید نثار حسین سنہ 1268ھ بمطابق سن 1852ء میں سرزمین علی نگر ضلع گیا صوبہ بہار پر پیدا ہوۓ ۔ آپ کے والد سید اکبر حسین تھے۔ فارسی تعلیم مختلف اساتذہ سے حاصل کی اور اس میں ایسی مہارت پیدا کی کہ لوگ شادیوں کے موقع پر لال خط لکھوانے یا کچھ تحریر کرانے کیلۓ آپ کی طرف رجوع کرتے تھے ۔موصوف اردو میں بہترین شاعری کرتے تھے اور اسکی اصلاح " آغا میرزا عطا " سے لیتے تھے ۔

آپ کو عربی سیکھنے کا شوق پیدا ہوا تو اپنے چچا "مولانا وزیر علی" کی خدمت میں رہ کرمیزان و منشعب، زبدۃ اور پنج گنج کو تقریباً ایک ماہ میں ختم کر دیا ۔ پھر عظیم آباد میں مولانا زکی حسن زنگی پوری اور مولانا سید محمد عسکری لکھنوی سے صرف و نحو کی کتابیں پڑھیں اور مولانا سید علی حسین زنگی پوری سے بھی کسب فیض کیا ۔

پھر آپ کی شادی ہو گئی، شادی کے ایک ہفتہ بعد لکھنؤ پہنچے اور وہاں رہ کر مولانا سید علی حیدر ،مولانا کمال الدین ،

مولانا علی نقی ، ممتاز العلماء آیت اللہ سید محمد تقی، سید العلماء ثانی، ملک العلماء اور سید احمد علی محمد آبادی کی خدمت میں

زانوۓ ادب تہہ کۓ ۔

طب کا شوق ہوا تو "نواب حکیم مظفر حسین خاں" سے علم طب حاصل کیا ۔ پہلے تو حکیم صاحب نے بے توجہی برتی لیکن جب آپکی قابلیت کا علم ہوا تو پوری توجہ کے ساتھ" نفیسی" کا سبق بیس روز تک پڑھا کر فرمایا کہ آپ بیکار پڑھتے ہیں استاد کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اکیسویں روز سے سبق چھوٹ گیا تو آپ نے مولوی تفضل حسین تعلقدار فتحپور بسواں سے نفیسی ، قانون ِشیخ ، قوانینُ الاصول اور شرحِ لمعہ نہایت عمیق طریقہ سے پڑھ کر وطن تشریف لے آۓ اور وطن میں رہ کر علمی وطبی خدمات میں مشغول ہو گۓ ۔

علّامہ نثار چھ مرتبہ حج اور نومرتبہ زیارات عراق سے مشرف ہوۓ، اسی طرح دو مرتبہ زیارت کی غرض سےمشہدمقدس تشریف لے گۓ ۔ حج کے ایک سفر میں مولانا سید نیاز حسن حیدرآبادی اور مولانا مظہر علی بنارسی حیدرآبادی سے ملاقات ہو گئی تو یہ دونوں بزرگوار آپ کو حیدرآباد لے آۓ ، یہاں کچھ عرصہ قیام کیا اور ماہانہ 300 روپۓ تنخواہ پر یونانی شفاخانہ بیرون بلدیہ حیدرآباد کے مہتمم ہو گۓ ۔ سن 1337ھ میں سرکار سے پینشن ملنے لگی۔ مشہد مقدس کے دوسرے سفر میں شاہ ایران "ناصر الدین شاہ "سے ملاقات ہوئی تو آپ کو "عمدۃ العلماء" کے خطاب سے نوازا، یہ لقب تاج العلماء علی محمد نے بھی عطا فرمایا تھا ۔

عراق میں رہ کر ایک ماہ میرزا محمد حسن شیرازی سے، چار ماہ شیخ مازندرانی کربلائی و ملا محمد حسین اردکانی سے اور ایک ماہ میرزا حبیب اللہ سے کسب فیض کیا۔

آپ کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے جن میں سے: مولانا ابو الحسن میرن حیدرآبادی، مولانا بندہ حسین، مولانا اکابر حسین زیدپوری اور مولانا سید احمد حسین برستی کے اسماء گرامی سر فہرست ہیں۔

آپ نے اپنی پوری زندگی علم دین سیکھنے اور سکھانے میں صرف کر دی ، تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ، جنمیں سے : ترجمہ شافیہ ، ہدایۃ ُالمومنین ، صراطِ مستقیم، ایقاظ الغافلین، ردُّ الاجابۃِ الشّیخیہ، الالقابُ المتداولہ، حاشیہ بر شرح ِجامی ،حاشیہ شرح تجرید، حاشیہ شرحِ لمعہ ،حاشیہ شرح زبدۃ الاصول، ، دیوان اردو ، دیوان فارسی اور دیوان عربی وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں ۔

اللہ نے آپ کو دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا ان کے بیٹے کو مولانا زین العابدین کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

آخرکار یہ علم و عمل کا آفتاب سن 1338ھ بمطابق 1920 ء میں سرزمین حیدرآباد پر غروب ہو گیا اور نماز جنازہ کے بعد مومنین کی کثیر تعداد کے ہمراہ" قبرستان دائرہ میر مومن حیدرآباد" میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج5، ص315دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2020ء

تبصرہ ارسال

You are replying to: .